خوشبو کا سفر (قسط نمبر۳) - My Writings: expressions over time

A collection of stories , travelogues , and essays in Urdu and English languages

Read The Best of Best !!

Monday, August 22, 2022

خوشبو کا سفر (قسط نمبر۳)


                                                                                                                                                   خضدار کی جانب روانگی



کوئٹہ کا ہوٹل سرینہ بہت خوبصورت ہے۔ بوفے کا انتظام ایک وسیع سبزہ زار میں تھا ۔میاں صاحب کے دوست کی بیگم سارا وقت تنی تنائی بیٹھی رہیں اور کھانا بھی بمشکل ہی کھا رہی تھیں۔ان سے مسکرا مسکرا کر گفتگو کرنے کی لایعنی کوشش میں ہمارے جبڑے دکھ گئے تھے۔ اس وقت تو میں بہت جز بز ہوئی تھی ۔ مگر آج سوچتی ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ خاتون کسی اضطرابی کیفیت میں ہوں-دوسروں کے بارے میں کو ئی حتمی رائے قائم کرنے میں کبھی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ چیزیں اور رویے ہمیشہ وہ نہیں ہوتے جو آپ کو سامنے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ صبح کو ہماری خضدار کی طرف روانگی تھی ۔تحصیل خضدارجنوبی بلوچستان کی طرف واقع ہے۔کوئٹہ سے خضدار شہر تک سڑک کے ذریعے پانچ چھ گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ خضدار شہر نیشنل ہائی وے پر واقع ہے جو بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ شہر سے تقریباً 300 کلومیٹر اور سندھ کے دارلحکومت کراچی سے تقریب300 کلومیٹر پر واقع ہے۔ شہر کے قریب ایک پرانے قلعہ ہےجسے 
عربوں نے بنا یاتھا ۔ اس قلعے کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔اس کے علاوہ آپ کو یہاں خوبصورت آبشاریں بھی ملیں گی۔ 



نیشنل ہائی وے بلوچستان مرکزی شاہ رگ ہے جو اس صوبے کے دورافتادہ علاقوں کو ملائے ہوئے ہے

جب آپ نیشنل ہائی وے پر سفر کرتے ہیں تو دونو ں جانب پتھر کے اونچے اونچے پہاڑ نظر آتے ہیں ۔یہ پہاڑ قدرتی حسن سے تو محروم ہیں لیکن ان کے سینے بیش بہا معدنیات سے بھرے      
 پڑے ہیں۔ یہاں پر میں بلوچستان کے بارے میں کچھ حقائق ایک فہرست کی شکل میں بتانا چاہتی ہوں تا کہ ہم سوچ بچار کر سکیں کہ من حیث القوم ہم کیا کر سکتے ہیں اس صوبے کی محرومیاں 
دور کرنے کے لیے

  • صوبہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے
  • تین لاکھ47 ہزارمربع کلو میٹر رقبے پرمحیط پاکستان کایہ بڑا صوبہ زیادہ تربے آب وگیاہ پہاڑوں،تاحد نظر پھیلے ہوئے صحراؤں‘ ریگستانوں اورخشک وبنجر میدانی علاقوں پرمشتمل ہے۔

  •   بلوچستان میں اب تک تقریباََچالیس انتہائی قیمتی زیرزمین معدنیات کے ذخائر دریافت ہوچکے ہیں جو محتاط تخمینوں کے مطابق آئندہ پچاس سے سو سال تک ملک کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور بیرونی سرمیا کاری  کا بیش قیمیت ذریعہ بھی ہیں۔

  • کچھ اہم معدنیا ت جو بلوچستان میں پائے جاتے ہیں ، ان میں تیل،گیس، سونا،تانبا،یورینیئم، کولٹن، خام لوہا، کوئلہ، انٹی مونی، کرومائٹ، فلورائٹ‘ یاقوت، گندھک ، گریفائٹ ، چونے کاپتھر، کھریامٹی، میگنائٹ، سوپ سٹون، فاسفیٹ، درمیکیولائٹ، جپسم، المونیم، پلاٹینم، سلیکاریت، سلفر، لیتھیئم  وغیرہ شامل ہیں ۔

  •  بلوچستان اور وفاق کے درمیان ان معدنیات پر اایک تنازع اول روز سے حق اختیار کا چلا آرہا ہے،۔اسں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام  سمجھتے ہیں کہ انہیں وسائل سے ملنے والا قلیل حصہ ہے اور یہی ، محرومی کا احساس قیام پاکستان سے اب تک مختلف ادوار میں 5 شورشوں کا سبب بنا ہے۔ ساحل اور وسائل پر اختیار اور اس کا صوبے اور عوام کی ترقی و بہبود میں مصرف اہم مطالبہ ہے۔ اس کے برعکس فیصلوں، اقدامات اور رویوں نے بداعتمادی اور دوریاں پیدا کی ہیں، نوجوانوں نے بالخصوص گہرا اثر لیا ہے بلکہ ہنوز لے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان عنوانات کے تحت کسی بھی سخت تحریک کا حصہ بننا مباح سمجھتے ہیں۔

  •  بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال ہ،ہمیشہ سے ہی کشیدہ رہی ہے اور اسی لیے غیرملکی سرمایہ کار ی میں رکاوٹیں کھڑی ہیں ۔

عرض  حال یہ ہے کہ ان حالات کو دیکھ کر دل دکھتا ہے اور  اس سفرنامے کے لکھنے میں  یہ سوچ  حاوی رہی ۔ سیبوں ، پہاڑوں اور آبشاروں کی اس زمین میں ایک خوشبو چلتی ہے اور پیغام دیتی ہے کہ :

وطن کی مٹی گواہ رہنا گواہ رہنا

وطن کی مٹی عظیم ہے تو

کاش ہم ایسا کچھ کر سکتے ۔۔ 




2 comments:

Anonymous said...

Wonderful writing. Please keep on writing your travel experiences.

Atiya Writes said...

Thank you so much! Really appreciate your feedback.